زمیں سنولا گئی تھی، آسماں گہنا گیا تھا
قلم گم ہو گیا تھا اور دہن پتھرا گیا تھا
ہم اپنے منتشر سامان پر بیٹھے ہوئے تھے
نئی ترتیب کا پیغام غالب آ گیا تھا
بس اتنا یاد ہے ہم بالکونی میں کھڑے تھے
اور ان دیکھی زمینوں سے بلاوا آ گیا تھا
ہم اک بارہ دری کی سیڑھیوں پر سو گئے تھے
اور اک دریا ہمارے خواب سے ٹکرا گیا تھا
الجھ پڑتا تھا، اکثر بے سبب، بے وقت ہم سے
نظرانداز رہنے سے بدن سٹھیا گیا تھا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...